۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
عالمہ سیدہ توقیر فاطمہ نقوی

حوزہ/ جنت البقیع پر وہابیوں کی طرف سے دو بار حملہ ہوا. پہلا حملہ سلطنت عثمانی کے دور میں ہوا. اس وقت چونکہ یہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بھی ایک اقدام تھا اس لئے سلطنت عثمانی نے اس کا قلع قمع کردیا لیکن بعد میں سعودی حکومت کے قیام عمل میں آنے کے بعد اس ریاست کے قاضی القضاة نے وہابی مفتیوں سے فتوے لے کر جنت البقیع کو دوبارہ منہدم کرنے کے کا حکم دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ملک پاکستان کی ممتاز شخصیت و مبلغہ عالمہ سیدہ توقیر فاطمہ نقوی جو علامہ سید صفدر حسین نجفی کی بڑی بیٹی ہیں نے یوم انہدام جنت البقیع کی مناسبت سے کہا کہ مسلمانوں کو ہر پلیٹ فارم پر جنت البقیع کی تعمیر کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے۔

انہوں نے دین اسلام میں مؤمنین اور بزرگان دین کی قبور کی زیارت کی شرعی حیثیت کیا ہے بیان کرتے ہوئے کہا کہ بعض قرآنی آیات توسل کی ترغیب دیتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اہلبیت رسول صلی اللہ علیہم وسلم، اصحاب پیامبر اور سلف صالحین کی سیرت سے قبور مؤمنین کی زیارت کا جواز ثابت ہوجاتا ہے، بلکہ بزرگان، مؤمنین، صالحین و بزرگان دین خاص طور پر حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام کی قبور کی زیارت کرنا شعائر اسلامی میں سے ہے۔ یہ بات اسلامی روایات اور سیرت سے ثابت ہے۔

انہوں نے وہابیت اور اس کے مخصوص نظریات کیا ہیں؟ ان کا دوسرے اسلامی فرقوں سے کیا اختلاف ہے؟ کے تعلق سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہابیت ایک خاص طرز تفکر ہے جو قرانی آیات کی تاویلات قبول کرنے کی بجائے ظواہر پر اعتقاد رکھتا ہے۔ اس طرز تفکر کے حامل لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر قرآن میں خدا کے اعضاء و جوارح کا ذکر ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ضرور جسم رکھتا ہے۔ کسی دوسری تاویل کو وہ قبول نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ روز اول سے ہی سیرت مسلمین میں موجود کئی اہم باتوں جیسے توسل اور زیارت قبور مؤمنین وغیرہ کو یہ بدعت اور شرک قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان یہ انتہائی سخت گیر اور افراطی گروہ ہے۔ یہ اپنے علاوہ دوسرے تمام فرقوں کو کسی نہ کسی طرح مشرک قرار دیتے ہیں۔ محمد بن عبد الوہاب نجدی نامی ایک شخص نے اس طرز تفکر کی آبیاری کی ہے۔

محترمہ سیدہ توقیر فاطمہ نقوی نے انہدام جنت البقیع کا اصلی محرک مذہبی تھا یا اس عمل شنیع کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما تھے اس حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جنت البقیع پر وہابیوں کی طرف سے دو بار حملہ ہوا. پہلا حملہ سلطنت عثمانی کے دور میں ہوا. اس وقت چونکہ یہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بھی ایک اقدام تھا اس لئے سلطنت عثمانی نے اس کا قلع قمع کردیا لیکن بعد میں سعودی حکومت کے قیام عمل میں آنے کے بعد اس ریاست کے قاضی القضاة نے وہابی مفتیوں سے فتوے لے کر جنت البقیع کو دوبارہ منہدم کرنے کے کا حکم دیا. یوں وہابیوں کے ہاتھوں 8 شوال 1344 کو دوسری بار یہ جرم عظیم سرزد ہوا۔ اس جرم عظیم کے ارتکاب کے لئے بظاہر وہابیت کے مذہبی افکار کا سہارا لیا گیا ہے۔

آپ نے جنت البقیع کی تعمیر نو کے لئے مسلم دنیا کو کونسے راستوں کا انتخاب کرنا چاہیئے؟ کس طرح سعودی عرب پر دباو ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ جنت البقیع کی تعمیر کرے؟ اس تعلق سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی ریاستی پالیسیوں میں کچھ تبدیلی دکھائی دے رہی ہے، جس سے لگتا ہے کہ قبور جنت البقیع کی تعمیر کے لئے بھی آسانی فراہم ہوگی لیکن سعودی عرب پر کوئی بھروسہ اور اعتبار نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں، تنظیموں اور عام عوام کو ہر پلیٹ فارم پر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیئے اور اس حوالے سے کبھی خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیئے۔ خواص کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اس اہم مسئلے بارے میں آگاہی دیں اور پوری مسلم امت میں اس ظلم کے خلاف غیض و غضب اور احتجاج کو فروغ دیں۔ سیاسی اور عوامی قوت کے ذریعے ہی مکہ و مدینہ پر مسلط اس گروہ کو اس ظلم سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

آپ نے سعودی عرب کے انجام کے حوالے سے واضح رہے کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ظالم ریاست ہے، اس کی پالیسیز ظالمانہ ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں اور شہروں میں اس کے ظلم سے مظلوم رو رہے ہیں اور قرآنی وعدے کے مطابق ظلم کا انجام فنا اور نابود ہوجانا ہے. اس لئے میں اعتقاد رکھتی ہوں کہ جلد ہی یہ ظالم اپنی ظالمانہ پالیسیز سمیت مٹ جائیں گے اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان مظالم کے خلاف مسلسل احتجاج کے ساتھ ساتھ بارگاہ خداوندی میں دعا اور توسل کا دامن بھی مضبوطی سے تھامے رہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .